Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر19

دن پر لگا کر اڑ رہے تھے،اس دن کے بعد سے ازہا زین کے کمرے میں جا ہی نہیں رہی تھی،وہ روز برابر والے کمرے میں سوتی،اکیلے کمرے میں رات کو ڈر تو لگتا پر اس ڈر سے کم جو زین کی قربت میں لگتا،زین کا رویہ اسکے ساتھ اب کافی حد تک نارمل تھا بلکہ اکثر وہ ایسی معنیٰ خیز باتیں ازہا کو کہتا جنہیں سن کر ازہا کا چہرہ کان کی لُو تک سرخ پڑ جاتا پر وہ اسکے سامنے ناسمجھنے کی ایکٹنگ کرتی اس کی باتوں کو اگنور کردیتی البتہ زین نے ابھی خود سے کوئی پیش قدمی نہیں کی تھی اسکی طرف یا شاید ازہا کے گریز کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ خاموش رہتا، رات کو زین بیڈ پر لیٹا کل کے مِشن کے بارے میں سوچ رہا تھا،کل مہینے کی آخری تاریخ تھی جس میں طاہر علوی لڑکیوں کو اسمگل کرنے والا تھا،انکی ٹیم کو کل دوپہر میں ہی بندرگاہ پر پہنچنا تھا کیونکہ رات تک طاہر علوی وہاں کنٹینر میں لڑکیاں بھجواتا،اسے زبرین نے طاہر علوی کے آدمیوں کے ساتھ ہی رہنے کا کہا تھا تاکہ وہ وہاں سے کنیکٹ رہے،یہی سب سوچتے ہوئے زین کی نظر روم کے دروازے پر گئی،جہاں ازہا دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسائے کنفیوز سی کھڑی اپنے لب کاٹ رہی تھی،زین کو اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ نگاہ دوسری طرف پھیرنے لگی، کیا ہوا۔۔۔؟ اسے یوں ایک ہی جگہ پر ایستادہ دیکھ کر زین نے پوچھا ساتھ ہی دونوں بازوؤں کو سر کے اوپر کیے فولڈ کرگیا،اسے حیرت ہوئی کیونکہ اس ٹائم تک ازہا برابر والے روم میں سونے جاچکی ہوتی تھی، وہ۔۔۔آ۔۔کیا میں۔۔یہاں سوجاؤں۔۔؟ بمشکل کہتے ہوئے ازہا سر جھکا گئی کیوں۔۔۔دل نہیں لگ رہا میرے بنا تمہارا؟ زین نے اسکے نازک وجود کو نظروں کو اپنی پرشوق نظروں میں لیتے ہوئے پوچھا،البتہ لہجہ بلکل سنجیدہ تھا، نہیں۔۔۔ایسی بات نہیں ہے۔۔۔ وہ گڑبڑاہی گئی،زین نے اسکے بوکھلائے چہرے کو دیکھ خود میں امڈتی مسکراہٹ کو لب دبائے چھپایا، پھر۔۔۔؟ وہ جیسے موڈ میں تھا تبھی بات بڑھانے کے غرض پوچھا مجھے ڈر لگ رہا ہے اکیلے کمرے میں۔۔۔ اب کی بار ازہا نے صاف بات کہی جبکہ اسکی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھی زین کی نظروں میں تپش محسوس کر کے، یہ ڈر صرف آج ہی لگ رہا ہے تمہیں۔۔؟ وہ مزے سے باتوں کو طول دینے لگا یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقابل کی جان ہوا ہورہی ہے اسکی نگاہوں سے، ہاں۔۔۔ ازہا نے جھنجھلائے لہجے میں کہا،اب وہ تنگ ہونے لگی تھی اسکے سوالوں سے، تو کل واپس برابر والے روم میں سوگی۔۔؟ زین نے پوچھا ساتھ ہی بمشکل اپنی ہنسی دبائی کیونکہ ازہا کے ایکسپریشن سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اب رو دے گی،اور وہی پوا۔۔۔اس بار ازہا نے چہرہ اٹھا کر روہانسی شکل میں زین کو دیکھا،جس پر زین نے بڑی مہارت سے اپنے تاثرات کو پھر سپاٹ بنالیا، اچھا ٹھیک ہے آجاؤ۔۔۔ اسکی جان بخشی کرتا وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا،ازہا تو جیسے اسکی اجازت کی منتظر تھی،جھٹ سے بیڈ کی دوسری طرف آکر وہاں سے تکیہ اٹھانے لگی، ادھر۔۔۔کہاں۔۔۔؟ اسے تکیہ اٹھاتے دیکھ زین نے آگے ہوکر ازہا کی کلائی پکڑے پوچھا، یہاں پر سونا ہے نا۔۔۔ چونک روم میں کوئی صوفہ نہیں تھا تبھی ازہا نے نظروں سے زمین پر بچھے کارپیٹ کی طرف اشارہ کیا،اب زین کی پیشانی پر شکن پڑی تھی، وہاں پر کیوں سوگی؟ اسکو دیکھتے ہوئے زین نے سپاٹ لہجے میں پوچھا تو کہاں پر سونا ہے؟ اب ازہا نے بھی الجھ کر پوچھا جس پر زین نے ایک نظر اپنے برابر میں خالی جگہ کو دیکھ کر پھر ازہا کو دیکھا،وہ بوکھلائی تھی زین کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر، نہیں۔۔مجھے یہاں نہیں سونا۔۔۔ ازہا نے پریشانی میں کہا ساتھ ہی زین کی گرفت سے اپنی کلائی چھڑوائی اور تکیہ اٹھائے نیچے رکھ کر لیٹ گئی،زین کو اس چھوٹی سی لڑکی کی یہی ایک عادت بہت بری لگتی کہ وہ کبھی بھی ایک بار میں کہی گئی بات نہیں مانتی تھی، اسکی ضد کو دیکھ وہ تپ کر اپنی جگہ سے اٹھا پھر ازہا کے پاس آیا جو اب پرسکون سی آنکھوں پر ایک بازو رکھے نیچے کارپیٹ پر لیٹی تھی،زین نے ایک گہری نظر اسکے خوبصورت سراپے پر ڈالی،ازہا جو سکون سے لیٹی تھی خود پر تیز نظروں کی تپش محسوس کر کے اس نے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر دیکھا پر اگلے ہی پل اسکا دل زور سے دھڑکا زین کی بےباک نظریں خود پر دیکھتا پاکر،وہ بلکل اسکے سر پر کھڑا تھا،ابھی ازہا اٹھتی کہ زین نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکی تھوڑی کو اپنے ہاتھوں میں لیا،پکڑنے کا انداز نہایت نرم تھا کہ ازہا کے گال تمتمانے لگے، کیوں مجھے غصہ دلانے کے درپے رہتی ہو۔۔۔ایک دفعہ میں بات کیوں نہیں مانتی۔۔۔ اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گڑائے وہ سنجیدگی سے پوچھا پر اسکا لہجہ بلکل بہکا ہوا لگا تھا ازہا کو، میں نے کوئی غصہ دلانے کی کوشش نہیں کی تمہیں۔۔۔میں صرف یہ کہہ رہی تھی۔۔۔ ازہا نظریں جھکائے لہجے کو بمشکل نارمل کیے اسے بتانے لگی پر زین جو خمار بھری نظروں سے اسکے سرخ و سفید چہرے کو دیکھ رہا تھا،اچانک اس پر جھکتا ازہا کے باقی الفاظوں کو اسکے منہ میں ہی دباگیا،ازہا کی آنکھیں پھیلی تھیں اس مغرور مرد کی اس گستاخی پر،دھڑکنیں اچانک سست ہوئیں جبکہ سانس تقریباً رکنے لگی تھی اسکی،وہ اپنے ہاتھوں کی مٹھی بنائے کارپیٹ پر رکھے آنکھیں میچ گئی،تھوڑی دیر بعد آہستگی سے اس سے دور ہوتے ہوئے زین نے اب ازہا کے ٹماٹر ہوتے چہرے کو دیکھا،اسکی نگاہیں اٹھنے سے انکاری تھی،ہونٹوں کو دانتوں میں دبائے وہ زین سے نظریں نہ ملانے کی بھرپور کوشش کیے جارہی تھی، اب چلیں بیڈ پر۔۔۔ اسکے سرخ گال کو ہاتھ کی پشت سے نرمی سے سہلائے زین نے اب معنی خیزی سے پوچھا تو ازہا نے بمشکل گھنیری پلکوں کو اٹھائے اپنے بلکل نزدیک اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھا پھر نظریں جھکاگئی،ازہا کی خاموشی دیکھ زین نے اسکے وجود کو اپنی باہوں میں بھرا پھر اسے اٹھاکر بیڈ پر لیٹایا ساتھ ہی اس پر جھکنے لگا، زین۔۔۔رکیں۔۔۔ اسکی آنکھوں میں خمار دیکھ ازہا نے گھبراکر جلدی سے کہا،زین جو آہستگی سے اس پر جھکنے لگا تھا،اب ازہا کی پکار پر اسے دیکھنے لگا،مگر اسکا سارا خمار پل میں غائب ہوا ازہا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ، تم ٹھیک ہو۔۔۔؟ ازہا کے چہرے کو اپنے ہاتھ میں تھام کر زین نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا جس پر ازہا نے نفی میں سر ہلایا،دو موتی لڑھک کر اسکی آنکھوں سے گِرتے ہوئے بالوں میں جذب ہوئے، ازہا کیا ہوا ہے؟ زین نے حیرانی سے پوچھا وہ اس پر سے اٹھتا ہوا بیڈ پر بیٹھا ساتھ ہی ازہا کو بھی بازوؤں سے تھام کر بیٹھایا،مسلسل اسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر گالوں میں پھسلے دیکھ زین نے اسکا خوبصورت چہرہ ہاتھوں کا پیالہ بناکر تھاما، کچھ بتاؤ تو لڑکی۔۔؟ نرمی سے پوچھتے ہوئے زین نے اسکی آنکھوں میں دیکھا زین۔۔۔میں۔۔۔ وہ بولنے کی کوشش کرتی ہلکان ہوئی،الفاظ بمشکل ساتھ دی رہے تھے، تم کیا۔۔۔ مکمل توجہ اسکی جانب کیے زین بولا،آنسوؤں کا پھندا ازہا کے حلق میں اٹکا تھا،اس نے لال ڈوروں سے جلتی آنکھیں اٹھا کر ایک نظر زین کو دیکھا وہ۔۔۔میں۔۔۔زین۔۔۔میں ریپڈ ہوں۔۔۔ بھرائی ہوئی آواز میں بمشکل بولتے ہوئے ازہا نے اذیت سے اپنی آنکھیں میچی،وہ زین کو یہ بات نہیں بتانا چاہتی تھی پر اب اسکی اپنی طرف پیش قدمی نے ازہا کو مجبور کردیا اسے بتانے کے لیے، تو۔۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد زین کے کہنے پر ازہا نے جھٹکے سے اسے دیکھا، آپ کو کوئی پروبلم نہیں۔۔۔ وہ تحیر زدہ سی اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھی،یہ بات جان کر زین کی آنکھوں میں اسے زرا بھی ناپسندیدگی یا ناگواریت نہیں دکھی،اور اسی چیز نے ازہا کو ٹھٹھکنے پر مجبور کیا، کیوں ہوگی مجھے پروبلم۔۔؟ وہ الٹا اسی سے سوال کر بیٹھا،ازہا تھوڑا سٹپٹائی پھر ہمت کر کے بولی کیونکہ اکثر مرد یہ بات جان کر لڑکیوں کو طلاق دے دیتے ہیں۔۔۔اور ویسے بھی ایک داغدار لڑکی کو کوئی قبول نہیں کرتا۔۔۔اور مجھے لگا آپ بھی مجھے طلاق۔۔۔ بکواس بند رکھو۔۔۔ اسکے بےربط بولتے رہنے پر زین نے سختی سے اسے ٹوکا،آنکھیں پل میں سرخ ہوئی تھیں،ازہا گھبراکر پیچھے سرکی تھی اسکے پتھریلے تاثرات دیکھ،زبان تالوں سے جا چپکی،وہ خوف سے نگاہ جھکاگئی، تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میں تمہیں طلاق دونگا یہ بات جان کر۔۔۔۔ ازہا کے دونوں بازوؤں کو مٹھیوں میں دبوچ کر زین نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے تنے جبڑوں سمیت پوچھا،ازہا کراہی تھی اسکی حد سے زیادہ سخت گرفت پر، کیونکہ۔۔۔مجھے آپ ایسے لگتے ہیں۔۔۔ اپنے بازوؤں پر بڑھتے درد کی وجہ سے ازہا نے چڑ کر کہا جس پر زین کی گرفت اچانک ڈھیلی پڑی،ازہا جلدی سے اپنے بازوؤں کو چھڑواکر پیچھے ہوئی،انتہائی سخت گرفت سے اسکے بازو اکڑنے لگے تھے، تم جس جگہ سے بازیاب ہوکر آئی تھی وہاں کوئی لڑکی پاک نہیں رہ پاتی۔۔۔یہ بات میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔۔اسکے باوجود میں نے تم سے خاموشی سے نکاح کرلیا کیونکہ مجھے اس بات پر کوئی پروبلم نہیں تھی کیونکہ اگر تم میں کوئی کمی ہے تو کہیں نہ کہیں میں بھی پرفیکٹ نہیں ہوں۔۔۔۔مگر۔۔۔ وہ ضبط سے بولتے ہوئے رکا تھا،ازہا پشیمانی سے سر جھکائے اسکے سامنے بیٹھی تھی،زین کو افسوس ہوا اسکی پست سوچ پر،تبھی اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر وہ تیزی سے اٹھتا ہوا کمرے سے نکل گیا،ازہا نے بھیگی نظروں سے اسکی چوڑی پشت کو دیکھا،پھر شرمندگی سے سر جھکا کر رونے لگی،وہ جانتی تھی کہ اس نے غلط کیا پر مجبور تھی کیونکہ اسے یقین نہیں تھا کہ زین اتنی جلدی اسکی طرف پیش قدمی کرے گا،وہ ابھی خود ہی تیار نہیں تھی ان سب کے لیے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسی ہے۔۔؟ یمنا نے روم سے نکلتی ڈاکٹر سے پوچھا آج صبح نتاشہ اچانک بےہوش ہوئی تھی جس پر طاہر علوی نے اپنی فیملی ڈاکٹر کو بلایا تھا، زیادہ ٹینشن کی بات نہیں۔۔۔۔ایسی کنڈیشن میں کمزوری ہوتے رہتی ہے۔۔۔جسکی وجہ سے یہ بس بےہوش ہوگئی تھیں۔۔۔ ڈاکٹر آسیہ نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا پر یمنا ٹھٹھکی، کیا مطلب کیسی کنڈیشن ڈاکٹر۔۔؟ وہ کسی نتیجے پر پہنچ ہی چکی تھی پر پھر بھی ان سے پوچھنا ضروری سمجھا شی اِس ایکسیپٹڈ۔۔۔ وہ مسکراکر گویا ہوئیں جبکہ یمنا خوشگوار حیرت سے انہیں دیکھنے لگی، او مائی گاڈ۔۔۔۔ وہ منہ پر خوشی سے ہاتھ رکھے بولی ساتھ ہی روم کھولنے لگی پر ڈاکٹر شہلا کی آواز پر وہ رکی، ویکنیس زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں بہت کئیر اور توجہ کی ضرورت ہے۔۔۔فلحال انہیں آرام کرنے دیں۔۔۔ مخصوص مسکراہٹ سمیت کہتے وہ وہاں سے نکلیں تو یمنا بھی ہلکا سا گیٹ وا کر کے نتاشہ کو دیکھنے لگی جو اب تک آنکھیں موندے لیٹی تھی،پھر اس نے نتاشہ کو آرام کے غرض چھوڑ کر چہرے پر مسکان سجائے طاہر علوی کے کمرے کا رخ کیا، آپ جانتے ہیں کیا ہوا ہے نتاشہ کو۔۔۔؟ انکے کمرے میں آتے ہی یمنا خوشی سے بولی ہممم جانتا ہوں۔۔۔ انکے سپاٹ تاثرات سمیت کہنے پر یمنا کے چہرے پر سے مسکراہٹ غائب ہوئی، وہ نتاشہ۔۔۔ اہمم۔۔۔ابھی جاؤ۔۔۔مجھے کچھ دیر اکیلے رہنا ہے۔۔۔ اسکی بات کاٹتے ہوئے طاہر علوی نے ٹوکا ساتھ ہی یمنا کی طرف سے چہرہ پھیرہ،صاف اشارہ تھا وہاں سے جانے کا،یمنا جتنی خوش ہوکر وہاں آئی تھی اب اتنی ہی اداسی میں وہاں سے نکلی،سمجھ رہی تھی کہ وہ آج باقی دنوں کے مقابلے تھوڑے پریشان ہیں۔۔۔کیونکہ آج اسمگلنگ کے لیے لڑکیاں بھیجنی ہے پر ایجنٹس بھی ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے یہ کام مشکل ہورہا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو بندرگاہ پر کچھ بحری جہاز کے لنگر ڈل رہے تھے تو کچھ پر لوڈنگ ہورہی تھی،ہلکی ہلکی بھیڑ تھی،سارے کام معمول کے مطابق ہورہے تھے،تبھی دو کنٹینر وہاں پر آکر رکے،چار آدمی آگے سے نکل کر آئے پھر ایک نظر ہر طرف کیے بندرگاہوں پر پہلے سے کھڑے اپنے کچھ آدمیوں کو اشارہ کیا،وہ آدمی سامنے آکر ہلکی آواز میں ایک دوسرے سے کچھ بولتے ہوئے ایک نظر کونے میں کھڑے اپنے جہاز کو دیکھنے لگے،ان آدمیوں کے ساتھ زین بھی وہاں آیا تھا،خاموشی سے انکی باتیں سنتے ہوئے زین نے ایک ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا پھر اس میں رکھے موبائل پر جو آلریڈی زبرین کا نمبر اس نے ڈائل کیا ہوا تھا،وہ کال کٹ کی،دوسری طرف اس عمارت میں بیٹھا راکنگ چئیر پر بیٹھا زین کال کٹ ہونے پر زین کا اشارہ سمجھتے ہوئے دوسرا نمبر ڈائل کرنے لگا، موو، تیمور کے کال ریسیو کرنے پر اس نے ایک لفظی کہا اور ادھر بندرگاہ پر اچانک ایک ساتھ کئی فائرنگ شروع ہوئی،اسی کے ساتھ لوگوں کا شور برپا ہوا،کچھ ہی دیر میں وہاں بھگ دڑ سی مچ گئی،ہر کوئی اپنی جان بچانے کے غرض ادھر ادھر بھاگ رہا تھا،طاہر علوی کے آدمی معاملہ خراب ہوتا دیکھ جلدی سے کنٹینر کا رخ کرنے لگے پر وہاں پہلے سے ہی کئی آدمیوں کو پسٹل لیے کھڑے دیکھ وہ بوکھلائے،طاہر علوی کے آدمیوں کے مقابلے میں افسران زیادہ تھے،زین نے اسی بھیڑ میں ایک نظر ہر طرف دوڑائی،کنٹینر کے پاس اسے تیمور دکھا تھا،وہ بھی زین کو دیکھ چکا تھا،زین نے اسے نظروں سے کنٹینر میں چڑھنے کا اشارہ کیا ساتھ ہی اپنی پسٹل نکال کر خود بھی طاہر علوی کے آدمیوں پر فائر کرنے لگا،پر اچانک اسکے پیچھے سے کسی نے زین کے ٹھیک کندھے پر جہاں زخم تھا ٹھیک اسی جگہ فائر کیا،زین کراہتے ہوئے بےساختہ گھٹنوں کے بل گرا،کندھے پر درد کی شدت بھری لہر دوڑی،زین نے مڑ کر مقابل کو دیکھا وہ طاہر علوی کا وہی آدمی تھا جو اب تک ہر کام میں زین کی رہنمائی کررہا تھا،زین نے لب بھینچتے ہوئے سر جھکایا جس پر اس آدمی کے چہرے پر کمینگی مسکراہٹ پھیلی پر یہ مسکراہٹ اسکے لیے آخری ثابت ہوئی جب لمحے کے ہزارویں حصّے میں زین نے ہاتھ فضا میں بلند کیے اسکی کنپٹی کا نشانہ لیے اچانک شوٹ کیا،گولی اسکی کنپٹی کو چیرتے ہوئے گئی،اسکا بےجان وجود نیچے گرا تھا اور اب زین فوراً کھڑا ہوا تو اسکے چہرے پر تمسخر اڑاتی مسکراہٹ تھی،باقی کے افسران کو فائر کی منافی کر کے بچے ہوئے افراد کو اریسٹ کا حکم کرتے زین دوسرے کنٹینر کے جانب گیا،جن میں یقیناً لڑکیاں تھیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب طبیعت کیسی ہے میری بیٹی کی۔۔؟ طاہر علوی نتاشہ کے روم میں آتے ہوئے پوچھے تھے،نتاشہ جو بیڈ پر ٹیک لگائے خاموشی سے کسی ایک نقطے پر نظر رکھے اپنی سوچوں میں گم تھی،انکی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی، ٹھیک ہوں پاپا۔۔۔ وہ لبوں پر پھیکی مسکان سجائے بولی،جانتی تھی طاہر علوی اسکی وجہ سے کافی پریشان رہتے ہیں تبھی انہیں دکھانے کے لیے وہ کبھی کبھی زبردستی مسکرادیتی، بیٹا مجھے آپ سے ایک ضروری کام تھا؟ وہ اب اپنے اصل مدعے پر آئے تھے، جی کہیں پاپا۔۔ اس نے طاہر علوی کو اپنے ساتھ لائی فائل کھولتے دیکھ پوچھا، بیٹا یہ۔۔۔آپکی ماما نے آپکے پیدا ہونے پر یہ وصیت کی تھی کہ انکی جتنی بھی زمینیں ہیں وہ آپکے نام پر تب تک ہونگی جب تک آپ 20 سال کی نہیں ہوجاتی۔۔۔اسکے بعد انہوں نے یہ پراپرٹیز بیچ کر ایک یتیم خانہ کھولنے کا وعدہ لیا تھا مجھ سے۔۔۔۔تو بیٹے کل پرسوں آپکی برتھ ڈے ہے اسی لیے میں نے سوچا ابھی ان پیپرز پر آپ سے سگنیچرز لے لوں۔۔۔۔ انہوں نے نہایت نرمی سے اسے ساری بات بتائی، نتاشہ چند پل خاموشی سے اپنے باپ کو دیکھے گئی، پاپا ایک بات پوچھوں۔۔۔ انکے چہرے کو دیکھتے ہوئے نتاشہ نے پوچھا جی بیٹا۔۔۔ کیا یہ سچ ہے پاپا کہ آپ اسمگلنگ کرتے ہیں۔۔۔؟ اپنے اندر امڈتے سوال کو آخر آج اس نے پوچھ ہی لیا پر اگلے ہی پل طاہر علوی کے تاثرات دیکھ نتاشہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، بیٹا۔۔۔میں تمہیں ایسا انسان لگتا ہوں؟ انہوں نے جس قدر چہرے پر تکلیف دہ تاثرات سجائے نتاشہ سے پوچھا،وہ بوکھلائی نہیں پاپا۔۔۔میں یہ بات صرف اس لیے پوچھ رہی ہو کیونکہ۔۔۔ کیونکہ جن لوگوں نے تمہیں اغواء کیا تھا۔۔۔انہوں نے تمہیں یہ بتایا۔۔۔ وہ اسکی بات کاٹتے ہوئے پوچھے تو نتاشہ نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا اور تم نے انکی بات پر یقین بھی کرلیا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔۔اگر کسی غیروں کی باتوں میں آکر تم اپنے باپ پر شک کرتی ہو تو کوئی بات نہیں غلط نہیں ہے یہ۔۔۔تم حق رکھتی ہو۔۔۔۔ وہ کمال مہارت سے آنکھوں میں آنسو بھی لے آئے اور بس،یہی تک نتاشہ کی برداشت تھی، نہیں پاپا میں آپ پر شک نہیں کررہی۔۔۔اگر شک کرتی تو میں۔۔۔۔ایک منٹ۔۔۔یہ لیں۔۔۔ وہ کہتے ساتھ جلدی سے سامنے رکھے پیپرز پر سگنیچر کرنے لگی،طاہر علوی جو آنکھوں میں آئی نمی کو انگلیوں سے دبانے کے بہانے بغور نتاشہ کو ان پیپرز پر سائن کرتا دیکھ رہے تھے،انکے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ پھیلی،جسے وہ نتاشہ کے دیکھنے پر فوراً چھپاگئے، یہ لیں پاپا۔۔۔میں نے کردیا سائن۔۔۔اگر میں شک کرتی آپ پر۔۔۔تو کیوں کرتی یہ سائن۔۔۔آئی ایم سو سوری پاپا۔۔۔وہ بس میں نے یونہی پوچھا تھا صرف۔۔۔۔ شرمندگی سے سر جھکائے وہ انہیں وضاحت دینے لگی، میرا بچہ۔۔۔کوئی بات نہیں بچوں سے ہوتے رہتی ہیں چھوٹی موٹی غلطیاں۔۔۔پر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔اپنے پاپا پر کبھی شک مت کرنا۔۔۔آپکے پاپا آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔ وہ تو پہلے ہی خوش تھے اسکے سگنیچر کرنے پر تبھی جلدی سے فائل فولڈ کر کے بولتے آخر میں اسے گلے لگا گئے،نتاشہ آسودگی سے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھنے لگی،زبرین کے دھوکے کے بعد ایک باپ اور ایک دوست کا ہی سہارا تھا اسے،جسکی بدولت وہ زندگی جینے تو نہیں پر گزارنے کے لائق ضرور ہوگئی تھی،طاہر علوی وہ فائل ہاتھ میں لیے اس سے اور بھی باتیں کررہے تھے کہ اچانک انکا سیل رنگ کرنے لگا، ہیلو۔۔۔ نتاشہ سے ایکسکیوز کرکے انہوں نے سائیڈ میں ہوتے ہوئے کال ریسیو کی،پر دوسری جانب سے جو خبر ملی،وہ انہیں زلزلے کی مانند محسوس ہوئی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments